نکلی نسیم صبح جو ان کے دیار سے
گلشن تمام لگنے لگے مشک بار سے
جانے لگیں جو قافلے آقا کے شہر کو
پوچھے تو کوئی حال دل بے قرار سے
لب پر نبی نبی ہے تو دل میں نبی نبی
نکلے یہی نفس کے مرے تار تار سے
قبضہ مرے نبی کا ہے کل کائنات پر
باہر نہیں ہے ایک بھی شے اختیار سے
آواز آ رہی تھی صلوٰۃ و سلام کی
شاہد علی ہیں، گزرے وہ جب کوہسار سے
صل علیٰ کا نغمہ ہے ہر موج بحر میں
آئے صدا درود کی ہر آبشار سے
تخلیق بے مثال ہے اخلاق لاجواب
ہیں منفرد وہ خلق میں ہر اعتبار سے
جب بھی غلام ان کا غموں سے ہوا نڈھال
ان کے کرم نے بڑھ کے سنبھالا ہے پیار سے
چاہے جو اپنی گردش ایام خیریت
الجھے نہ مصطفےٰ کے کسی جاں نثار سے
دیوانۂ رسول کو کیا فکر حشر ہو
جائے گا وہ وہاں بھی بڑے افتخار سے
جانے نہ پائے ہاتھ سے دامان مصطفےٰ
اے نورؔ یہ دعا کرو پرور دگار سے