نہیں مطلب نہیں اس کی نہیں کا

یہ دل سمجھا نہیں پاگل کہیں کا

ستارے ماند ہیں سب تیرے ہوتے

کہ تُو ہے چاند ، وہ بھی چودھویں کا

میں روتا ہوں تو روتے ہیں دروبام

مکاں بھی دُکھ سمجھتا ہے مکیں کا

یہ کیسے موڑ پر چھوڑا ہے تو نے

مجھے چھوڑا نہیں تو نے کہیں کا

کیے سجدے کچھ اتنے اُس کے در پر

نشاں سا پڑ گیا میری جبیں کا

مری گردن تک آ پہنچا تو جانا

مرا تو ہاتھ ہے سانپ آستیں کا

لباسِ سرخ میں ملبوس لڑکی

چھلکتا جام حُسنِ احمریں کا

نہ جانے بات کیا تھی اُس گلی میں

کہ ہو کے رہ گیا فارس وہیں کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]