نہیں یہ عرض کہ آسُودۂ نِعَم رکھیے

حضرت مفتی سید امجد ربانی صاحب زید مجدہ کے ایک کلام پر تضمین

نہیں یہ عرض کہ آسُودۂ نِعَم رکھیے

بہ عِزّ و شہرتِ دُنیا نہ محتشم رکھیے

نہ تخت و تاج کا مالک شہِ اُمَم ! رکھیے

حضور ! اتنی عطا مجھ پہ کم سے کم رکھیے

’’نیاز مند کو من جملۂ خدم رکھیے‘‘

بِچھے ہیں کب سے سرِ راہ میرے قلب و نظر

بَرایں امید کہ ہوگا کبھی اِدھر سے گزر

جب آپ آئیں کروں عرض میں بَدیدۂِ تَر

یہ سر ہے یہ ہیں نگاہیں یہ دل ہے یہ ہے جگر

’’حضور آپ جہاں چاہیے قدم رکھیے‘‘

جو رشکِ منظرِ جنّت ہے اُس نظارے کا

ہے رتبہ عرش سے اونچا جس آستانے کا

تجلّیاتِ الٰہی کے خاص جلوے کا

نظارہ کیجے عقیدت سے ان کے روضے کا

’’نگاہِ شوق میں باغیچۂِ اِرم رکھیے‘‘

مصیبتوں کی تپش سے رہوں حفاظت میں

جُھلس کے شُعلۂ غم سے پڑوں نہ آفت میں

یہاں بھی اور وہاں گرمئِ قیامت میں

غموں کی دھوپ میں آلام کی تمازت میں

’’حضور ! سر پہ مِرے دامنِ کرم رکھیے‘‘

حضور ! مُوسَیِٔ دل کو نوید ہوجائے

نظر میں مَنظرِ اَیمَن کشید ہوجائے

کرم ہو ! حُسنِ رَاَی الحَق کی دید ہوجائے

حضور ! اب تو غلاموں کی عید ہو جائے

’’کہ کچھ تو پاسِ تقاضائے چشمِ نم رکھیے‘‘

ہُموم و رنجِ زمانہ کے ہم ستائے ہیں

خطا و جرم و مَعاصی کے اَبر چھائے ہیں

ہمارے حوصلے "جَاءُوْکَ” نے بڑھائے ہیں

حضور میں بڑی امّید لے کے آئے ہیں

’’ہمارے دستِ تمنّا کا کچھ بھرم رکھیے‘‘

اُٹھے عروسِ معانی سے یوں نقابِ سخن

ہو محوِ نعتِ یَمِ لُطف ہر حبابِ سخن

کُھلے نہ شاہوں کی مدح و ثنا میں بابِ سخن

نہ مدح غیر کی شرکت میں ہو کتابِ سخن

’’کہ وقف ان کے بیاں کے لیے قلم رکھیے‘‘

یہی ہے قولِ مُعَظَّم کہ شک نہیں امجد !

بنے گی مَطلعِ اَنوار پھر جبیں امجد !

حُدودِ کَون ہوں ساری تَہِ نگیں امجد !

ملے گی عظمتِ کونین بالیقیں امجد !

سرِ نیاز اگر ان کے در پہ خَم رکھیے”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]