نہ آسمان کو یوں سر کشیدہ ہونا تھا

حضور خاک مدینہ خمیدہ ہونا تھا

اگر گلوں کو خزاں نا رسیدہ ہونا تھا

کنار خار مدینہ دمیدہ ہونا تھا

حضور ان کے خلافِ ادب تھی بے تابی

مری امید تجھے آرمیدہ ہونا تھا

نظارہ خاک مدینہ کا اور تیری آنکھ

نہ اس قدر بھی قمر شوخ دیدہ ہونا تھا

کنار خاک مدینہ میں راحتیں ملتیں

دل حزیں تجھے اشک چکیدہ ہونا تھا

پناہ دامن دشت حرم میں چین آتا

نہ صبر دل کو غزال رمیدہ ہونا تھا

یہ کیسے کھلتا کہ ان کے سوا شفیع نہیں

عبث نہ اوروں کے آگے تپیدہ ہونا تھا

ہلال کیسے نہ بنتا کہ ماہ کامل کو

سلام ابروئے شہ میں خمیدہ ہونا تھا

لاملئن جہنم تھا وعدہ ءِ ازلی

نہ منکروں کا عبث بد عقیدہ ہونا تھا

نسیم کیوں نہ شمیم ان کی طیبہ سے لاتی

کہ صبح گل کو گریباں دریدہ ہونا تھا

ٹپکتا رنگ جنوں عشق شہ میں ہر گل سے

رگ بہار کو نشتر رسیدہ ہونا تھا

بجا تھا عرش خاک مزار پاک کو ناز

کہ تجھ سا عرش نشیں آفریدہ ہونا تھا

گزرتے جان سے اک شور ”یا حبیب“ کے ساتھ

فغاں کو نالہ ءِ حلق بریدہ ہونا تھا

مرے کریم گنہ زہر ہے مگر آخر

کوئی تو شہد شفاعت چشیدہ ہونا تھا

جو سنگ در پہ جبینوں میں تھا مٹنا

تو میری جان شرار جہیدہ ہونا تھا

تری قبا کے نہ کیوں نیچے نیچے دامن ہوں

کہ خاکساروں سے یاں کب کشیدہ ہونا تھا

رضا جو دل کو بنانا تھا جلوہ گاہ حبیب

تو پیارے قید خودی سے رہیدہ ہونا تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]