نہ آفتاب نہ روشن قمر کی حاجت ہے

ہمیں تو نورِ شہِ بحر و بر کی حاجت ہے

نشانِ منزلِ حق سے بھٹکنے والوں کو

نصابِ حضرتِ خیر البشر کی حاجت ہے

جہانِ حسرت و بے چارگی کا مارا ہے

دلِ حزیں کو کسی باخبر کی حاجت ہے

جہاں صدا سے بھی پہلے عطا کی بارش ہو

گدا گروں کو اُسی ایک در کی حاجت ہے

تمہارا ورد پکاؤں زباں کی چاہت ہے

تمہارے نام پہ کٹ جاؤں سر کی حاجت ہے

یہ آ تو جاتا ہے قلب و نظر میں ، ہاں لیکن

میں تیرا نام نہ لے لوں یہ ڈر کی حاجت ہے

تبسم اور ملے کچھ یا نہ ملے لیکن

تبسمِ شہِ جن و بشر کی حاجت ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]