نہ تیری آرزو دو دن نہ تیری آرزو برسوں

تجھے پا کر کیا کرتا ہوں اپنی جستجو برسوں

مجھے دیر و حرم جانا ضروری تھا مرے ساقی

مرے ہونٹوں کو ترسے ہیں ترے جام و سبو برسوں

بڑی تاخیر سے تیرا پیامِ بے رخی آیا

خزاں کے واسطے ترسی بہار ِ آرزو برسوں

خزاں آتے ہوئے ڈرتی ہے ایسے گلستانوں میں

جہاں کانٹے پیا کرتے ہیں پھولوں کا لہو برسوں

اُنہی کا تیر ہے وہ آپ ہی آ کر نکالیں گے

یونہی چبھتی رہے نوکِ ہلالِ آرزو برسوں

جبینِ ماہ پر لکھے بَاِظہارِ سحر ہم نے

شب غم کی سیاہی سے حروفِ آرزو برسوں​

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]