نہ جوازِ گنبدِ سبز میں ، نہ دیارِ گنبدِ سبز میں

مری ہجر زاد مسافتیں ہیں مدارِ گنبدِ سبز میں

وہی تازگی کی نمود ہے ، وہی زندگی کا شہود ہے

وہ جو سبزگی سی رواں رواں ہے بہارِ گنبدِ سبز میں

کوئی ہست اُس سے جُدا نہیں ، کوئی بُود اُس سے ورا نہیں

کہ یہ ممکنات کے سلسلے ہیں حصارِ گنبدِ سبز میں

کوئی شوق وقفِ نظر سہی ، کوئی جذب گردِ سفر سہی

جو کُشادِ بابِ مُراد ہے تو جوارِ گنبدِ سبز میں

کسی دستِ خُوئے کریم نے ، اُسے اپنے لمس میں لے لیا

جو دعائے رفتہ پڑی ہُوئی تھی کنارِ گنبدِ سبز میں

مَیں نہیں گزیدۂ شامِ غم ، مَیں نہیں گرفتۂ کربِ جاں میں

کہ مدارِ بہجتِ طالعی ہے منارِ گنبدِ سبز میں

مری بے شمار ضرورتوں سے بھی ہیں فزوں تری رحمتیں

مری ایک بھی تو خطا نہیں ہے شمارِ گنبدِ سبز میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]