نہ سکون دے نہ قرار دے ، مجھے امتحاں سے گذار دے

اُسے جیت دے اُسے پیار دے ، مجھے مات دے مجھے ہار دے

مِری آنکھ میں تِرا خواب ہے ، اُسے نوچ لے ذرا سوچ لے

کوئی پھانس دل میں اُتار دے ، مِرا زخم زخم نکھار دے

کسی شام کو مرے نام کر ، کوئی بات ہو تِرا ساتھ ہو

مِری ایک شبـ تو سنوار دے ، مجھے پیار کر مجھے پیار دے

کبھی آس پاس سنوں تجھے ، کبھی حرف حرف بُنوں تجھے

مِرے راستوں کو غبار دے ، کوئی قربتوں کا حصار دے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]