نہ عشق میں نہ ریاضت میں دھاندلی ھُوئی ھے

تُمہاری اپنی ھی نیّت میں دھاندلی ھُوئی ھے

گناہ گار تو دوزخ میں بھی کہیں گے یہی

حسابِ روزِ قیامت میں دھاندلی ھُوئی ھے

ھماری آھوں کی گنتی دوبارہ کرواؤ

ھمارے ساتھ محبت میں دھاندلی ھُوئی ھے

مَیں اپنے عشق میں گُم ھُوں، مِری بلا جانے

نہیں ھُوئی کہ سیاست میں دھاندلی ھُوئی ھے

وہ جشنِ فتح سے جَل کر دُھائی دیتے ھیں

کہ لوگو ! مالِ غنیمت میں دھاندلی ھُوئی ھے

گنے جو پاؤں کے چھالے تو قَیس جیت گیا

ھوا بضِد تھی مُسافت میں دھاندلی ھُوئی ھے

مَیں اس لیے بھی نمازیں قضا نہیں کرتا

خُدا کہے گا عبادت میں دھاندلی ھُوئی ھے

خرید لایا تو گھر آکے یہ کُھلا مُجھ پر

کہ چیز ٹھیک ھے، قیمت میں دھاندلی ھُوئی ھے

تُمہارا نام نوازے ھُوؤں میں تھا ھی نہیں

سو مت کہو کہ عنایت میں دھاندلی ھُوئی ھے

عجیب شعر مرے نام چَھپ گئے، فارس

مری غزل کی کتابت میں دھاندلی ھُوئی ھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]