نہ لبوں پہ آہ لاتے تو کچھ اور بات ہوتی

تہہِ غم بھی مسکراتے تو کچھ اور بات ہوتی

مرے دل میں تم مکیں ہو رگِ جاں سے بھی قریں ہو

جو نظر میں بھی سماتے تو کچھ اور بات ہوتی

مرے دل کی دھڑکنیں ہیں مرے گیت میرے نغمے

مرے غم کو تم بھی گاتے تو کچھ اور بات ہوتی

تری بے رخی سلامت ہمیں بھول جانے والے

تجھے ہم بھی بھول جاتے تو کچھ اور بات ہوتی

وہی شاخِ گل حسیں ہے جو ہے بجلیوں کا مرکز

وہیں آشیاں بناتے تو کچھ اور بات ہوتی

تھے نظر کے سامنے تو وہ نظر نواز جلوے

جو قدم نہ ڈگمگاتے تو کچھ اور بات ہوتی

تری آرزو کی لذت ترے پاس آ کے کھو دی

تجھے پا کے بھی نہ پاتے تو کچھ اور بات ہوتی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]