نہ وہ ملول ہوئے ہیں، نہ ہم اداس ہوئے

مزاج ترکِ تعلق پہ بے لباس ہوئے

بجھائے ایسے ہوا نے چراغِ خوش نظری

فروغِ دید کے موسم بھی محوِ یاس ہوئے

ہم اعتراض تھے ناقد مرے قصیدوں پر

جمالِ یار کو دیکھا تو ہم سپاس ہوئے

مری نظر میں خود اپنے ہی نقطہ ہائے نظر

نہیں جو تیرا حوالہ تو بے اساس ہوئے

یہ کار ہائے محبت بپاسِ خاطرِ عشق

دیارِ ہجر میں ہم سے بطورِ خاص ہوئے

یہ شہر جاں ہے سلامت کسی کے ہونے سے

ہزاروں حادثے ورنہ تو دل کے پاس ہوئے

سحر ہوئی تو رفیقانِ بے خبر، میرے

چراغِ کشتۂ ظلمت سے روشناس ہوئے

دکھائے گردشِ ایام نے وہ رنگ اس بار

ہم ایسے کافر و منکر خدا شناس ہوئے

ہمارا عہدِ مسائل رقم ہے غزلوں میں

ہمارے شعر زمانے کا اقتباس ہوئے

سخن جو عام سے لگتے تھے ساری دنیا کو

ظہیرؔ حلقۂ یاراں میں آکے خاص ہوئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]