نہ کوئی باد نما تھا نہ ستارہ اپنا

رہنما کوئی اگر تھا تو یہ رستہ اپنا

زندگی گزری تضادات سے لڑتے لڑتے

فیصلے سارے تھے اوروں کے، طریقہ اپنا

بے سلیقہ تو نہیں، بے سروسامان سہی

دست و بازو کو بنائیں گے وسیلہ اپنا

مان کرمشورے اپنوں کے اٹھایا ہے قدم

دیکھئے اب کیا نکلتا ہے نتیجہ اپنا

ڈر تو لگتا ہے بہت تیر گئ فردا سے

پیچھے ہٹنا بھی نہیں خیر وتیرہ اپنا

بادبانوں پہ بھروسے کا یہ نکلا انجام

آ گیا ہاتھ ہواؤں کے سفینہ اپنا

مشغلہ کسبِ ہنر پہلے کبھی ہوتا تھا

بیچنا علم وہنر اب ہے ذریعہ اپنا

مسلکِ کُل کو نہیں جانتے ہم کیا ہے ظہیرؔ

بات جو سچ ہے وہی بات عقیدہ اپنا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]