نہ کہیں سے دور ہیں منزلیں نہ کوئی قریب کی بات ہے

نہ کہیں سے دور ہیں منزلیں، نہ کوئی قریب کی بات ہے

جسے چاہے اس کو نواز دے، یہ درِ حبیب کی بات ہے

جسے چاہا در پہ بلا لیا ،جسے چاہا اپنا بنا لیا

یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے

وہ بھٹک کے رَاہ میں رِہ گئی، یہ مچل کے در سے لپٹ گئی

وہ کسی امیر کی شان تھی، یہ کسی غریب کی بات ہے

وہ خدا نہیں ، بخدا نہیں وہ مگر خدا سے جدا نہیں

وہ ہیں کیا مگر وہ ہیں کیا نہیں ، یہ محب حبیب کی بات ہے

ترے حسن سے تری شان تک ہے نگاہ و عقل کا فاصلہ

یہ ذرا بعید کا ذکر ہے وہ ذرا قریب کی بات ہے

میں بُروں سے لاکھ براسہی مگر اُن سے ہے مِرا واسطہ

مِری لاج رکھ لے مِرے خدا ،یہ تِرے حبیب کی بات ہے

تجھے اۓ مؔنوّر بے نوا درشہ سے چاہیے اور کیا

جو نصیب ہو کبھی سامنا تو بڑے نصیب کی بات ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]