نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے

اُٹھا لے جائے تھوڑی خاک اُن کے آستانے سے

تمہارے دَر کے ٹکڑوں سے پڑا پلتا ہے اِک عالم

گزارا سب کا ہوتا ہے اِسی محتاج خانے سے

شبِ اسریٰ کے دُولھا پر نچھاور ہونے والی تھی

نہیں تو کیا غرض تھی اِتنی جانوں کے بنانے سے

کوئی فردوس ہو یا خلد ہو ہم کو غرض مطلب

لگایا اب تو بستر آپ ہی کے آستانے سے

نہ کیوں اُن کی طرف اللہ سو سو پیار سے دیکھے

جو اپنی آنکھیں مَلتے ہیں تمہارے آستانے سے

تمہارے تو وہ اِحساں اور یہ نافرمانیاں اپنی

ہمیں تو شرم سی آتی ہے تم کو منہ دکھانے سے سے

بہارِ خلد صدقے ہو رہی ہے روئے عاشق پر

کھلی جاتی ہیں کلیاں دل کی تیرے مسکرانے سے

زمیں تھوڑی سی دے دے بہرِ مدفن اپنے کوچے میں

لگا دے میرے پیارے میری مٹی بھی ٹھکانے سے

پلٹتا ہے جو زائر اُس سے کہتا ہے نصیب اُس کا

ارے غافل قضا بہتر ہے یاں سے پھر کے جانے سے

بُلا لو اپنے دَر پر اب تو ہم خانہ بدوشوں کو

پھریں کب تک ذلیل و خوار دَر دَر بے ٹھکانے سے

نہ پہنچے اُن کے قدموں تک نہ کچھ حسنِ عمل ہی ہے

حسنؔ کیا پوچھتے ہو ہم گئے گزرے زمانے سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]