واعظ نے اپنے زورِ بیاں سے بدل دیا

کتنی حقیقتوں کو گماں سے بدل دیا

ہونا تھا میرا واقعہ آغاز جس جگہ

قصّے کو قصّہ خواں نے وہاں سے بدل دیا

ہے شرطِ جوئے شیر وہی، وقت نے مگر

تیشے کو جیسے کوہِ گراں سے بدل دیا

اب مل بھی جائیں یار پرانے تو کیا خبر

کس کس کو زندگی نے کہاں سے بدل دیا

بیدادِ عشق ہے کہ یہ آزارِ آگہی

سینے میں دل کو دردِ نہاں سے بدل دیا

اس بار دشتِ جاں سے یوں گزری ہوائے درد

موجِ لہو کو ریگِ رواں سے بدل دیا

آنکھوں میں شامِ ہجر کا ہر عکسِ منجمد

مل کر کسی نے اشکِ رواں سے بدل دیا

احساسِ رائگانیِ جذبِ دروں نہ پوچھ

میں نے سکوتِ غم کو فغاں سے بدل دیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]