واللّیل ضیائے زلفِ دوتا رخسار کا عالم کیا ہوگا
اے ذاتِ رسالت رُخ کے ترے انوار کا عالم کیا ہوگا
جب عام کرم سرکار کا ہے بے دینوں پر گستاخوں پر
اللہ غنی شیداوؔں پر پھر پیار کا عالم کیا ہوگا
اے غیرتِ یوسف بن دیکھے جب تجھ کو نگائیں ڈھونڈتی ہیں
اکثر یہ خیال آجاتا ہے دیدار کا عالم کیا ہوگا
جب اُن کے غلاموں کے در پر جھکتی ہے شہنشاہوں کی جبیں
یہ سوچتا ہوں پھر آقا کے دربار کا عالم کیا ہوگا
جب دستِ نگر ہی آقا کے بھرتے ہیں زمانے کی جھولی
ایماں سے کہہ دیں اہلِ جہاں مختار کا عالم کیا ہوگا
جو عشقِ حبیب خالق میں جلتے ہیں سدا پروانہ صفت
اے اہل نظر ان سینوں میں انوار کا عالم کیا ہوگا