واللّیل ضیائے زلفِ دوتا رخسار کا عالم کیا ہوگا

اے ذاتِ رسالت رُخ کے ترے انوار کا عالم کیا ہوگا

جب عام کرم سرکار کا ہے بے دینوں پر گستاخوں پر

اللہ غنی شیداوؔں پر پھر پیار کا عالم کیا ہوگا

اے غیرتِ یوسف بن دیکھے جب تجھ کو نگائیں ڈھونڈتی ہیں

اکثر یہ خیال آجاتا ہے دیدار کا عالم کیا ہوگا

جب اُن کے غلاموں کے در پر جھکتی ہے شہنشاہوں کی جبیں

یہ سوچتا ہوں پھر آقا کے دربار کا عالم کیا ہوگا

جب دستِ نگر ہی آقا کے بھرتے ہیں زمانے کی جھولی

ایماں سے کہہ دیں اہلِ جہاں مختار کا عالم کیا ہوگا

جو عشقِ حبیب خالق میں جلتے ہیں سدا پروانہ صفت

اے اہل نظر ان سینوں میں انوار کا عالم کیا ہوگا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]