وحشتوں کی سبیل ہوتے تھے
دکھ کے منظر طویل ہوتے تھے
ہجر چابک تھا پشت پہ پڑتا
اور چابک میں کیل ہوتے تھے
لالیاں کھا گیا مری یہ دکھ
کب یوں آنکھوں میں نیل ہوتے تھے
منزلوں کا پتہ دیا اس کو
ہم فقط سنگ میل ہوتے تھے
خواہشیں تھیں کثیر بچوں کی
اور وسائل قلیل ہوتے تھے
دل تو کرتا تھا موت آ جائے
عشق میں جب ذلیل ہوتے تھے
بحث کرنا تو میری فطرت ہے
میرے بابا وکیل ہوتے تھے
دشت لگتے تھے ظاہراً ورنہ
ہم بھی اندر سے جھیل ہوتے تھے