وحشتوں کی سبیل ہوتے تھے

دکھ کے منظر طویل ہوتے تھے

ہجر چابک تھا پشت پہ پڑتا

اور چابک میں کیل ہوتے تھے

لالیاں کھا گیا مری یہ دکھ

کب یوں آنکھوں میں نیل ہوتے تھے

منزلوں کا پتہ دیا اس کو

ہم فقط سنگ میل ہوتے تھے

خواہشیں تھیں کثیر بچوں کی

اور وسائل قلیل ہوتے تھے

دل تو کرتا تھا موت آ جائے

عشق میں جب ذلیل ہوتے تھے

بحث کرنا تو میری فطرت ہے

میرے بابا وکیل ہوتے تھے

دشت لگتے تھے ظاہراً ورنہ

ہم بھی اندر سے جھیل ہوتے تھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]