وداعِ یار کا لمحہ ٹھہر گیا مجھ میں

میں خود تو زندہ رہا وقت مر گیا مجھ میں

سکوت شام میں چیخیں سنائی دیتی ہیں

تو جاتے جاتے عجب شور بھر گیا مجھ میں

وہ پہلے صرف مری آنکھ میں سمایا تھا

پھر ایک روز رگوں تک اتر گیا مجھ میں

کچھ ایسے دھیان میں چہرہ ترا طلوع ہوا

غروب شام کا منظر نکھر گیا مجھ میں

میں اس کی ذات سے منکر تھا اور پھر اک دن

وہ اپنے ہونے کا اعلان کر گیا مجھ میں

کھنڈر سمجھ کے مری سیر کرنے آیا تھا

گیا تو موسم غم پھول دھر گیا مجھ میں

گلی میں گونجی خموشی کی چیخ رات کے وقت

تمہاری یاد کا بچہ سا ڈر گیا مجھ میں

بتا میں کیا کروں دل نام کے اس آنگن کا

تری امید پہ جو سج سنور گیا مجھ میں

یہ اپنے اپنے مقدر کی بات ہے فارسؔ

میں اس میں سمٹا رہا وہ بکھر گیا مجھ میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]