وطنِ عزیز میں حکومت کی تبدیلی پر

ایک چہرہ بدل گیا ہو گا
ایک پرچم اتر گیا ہو گا
ایک دنیا سَنور چلی ہو گی
ایک عالَم بکھر گیا ہو گا
نشر گاہوں سے پھر فضاؤں میں
وعدۂ خوب تر گیا ہو گا
پھر خوشامد کا حرفِ بے توقیر
سرخیوں میں اُبھر گیا ہو گا
کچھ سیاسی بیان بازوں کا
آج قبلہ سدھر گیا ہو گا
رُخ بدلتے وفا فروشوں سے
شہر بازار بھر گیا ہو گا
سر منبر خراج دینے کو
واعظِ نامور گیا ہو گا
مہر تائید لے کے بیعت میں
مفتیِ معتبر گیا ہو گا
اک کلاہِ ہزار منصب و جاہ
کج اداؤں کے گھر گیا ہو گا
ایک الزام سرکشی پھر سے
اہلِ غیرت کے سر گیا ہو گا
حاکم شہر کا طلب نامہ
ہر مخالف کے گھر گیا ہو گا
زرِ تاوان لینے ہرکارہ
کوبکو دربدر گیا ہو گا
سر پھروں کو دروغۂ زنداں
پا بہ زنجیر کر گیا ہو گا
جرم اپنے بھی صاحبِ میزان
بے گناہوں پہ دھر گیا ہو گا
ایک دنیا سنور چلی ہو گی
ایک عالم بکھر گیا ہو گا
ایک چہرہ بدل گیا ہو گا
ایک پرچم اتر گیا ہو گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]