اردوئے معلیٰ

ایک چہرہ بدل گیا ہو گا
ایک پرچم اتر گیا ہو گا
ایک دنیا سَنور چلی ہو گی
ایک عالَم بکھر گیا ہو گا
نشر گاہوں سے پھر فضاؤں میں
وعدۂ خوب تر گیا ہو گا
پھر خوشامد کا حرفِ بے توقیر
سرخیوں میں اُبھر گیا ہو گا
کچھ سیاسی بیان بازوں کا
آج قبلہ سدھر گیا ہو گا
رُخ بدلتے وفا فروشوں سے
شہر بازار بھر گیا ہو گا
سر منبر خراج دینے کو
واعظِ نامور گیا ہو گا
مہر تائید لے کے بیعت میں
مفتیِ معتبر گیا ہو گا
اک کلاہِ ہزار منصب و جاہ
کج اداؤں کے گھر گیا ہو گا
ایک الزام سرکشی پھر سے
اہلِ غیرت کے سر گیا ہو گا
حاکم شہر کا طلب نامہ
ہر مخالف کے گھر گیا ہو گا
زرِ تاوان لینے ہرکارہ
کوبکو دربدر گیا ہو گا
سر پھروں کو دروغۂ زنداں
پا بہ زنجیر کر گیا ہو گا
جرم اپنے بھی صاحبِ میزان
بے گناہوں پہ دھر گیا ہو گا
ایک دنیا سنور چلی ہو گی
ایک عالم بکھر گیا ہو گا
ایک چہرہ بدل گیا ہو گا
ایک پرچم اتر گیا ہو گا

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ