وفورِ خیر تھا ، سو عرضِ حال بھُول گیا

وفورِ خیر تھا،سو عرضِ حال بھُول گیا

مدینے پہنچا تو تابِ سوال بھُول گیا

وہ ایک لمحہ کہ پیشِ حضور ایسا تھا

جُدائیوں کے سبھی ماہ و سال بھُول گیا

یہ ایک ممکنہ صورت تھی اُن کی مدحت کی

حروفِ عجز لکھے اور کمال بھُول گیا

وہ ایک شہر بسا ہے خیال سے دل تک

زمانے!مَیںترے سب خد و خال بھُول گیا

بس اتنا یاد ہے دیکھا تھا گنبدِ خضریٰ

پھر اس کے بعد تھا کیا اپنا حال ! بھُول گیا

اُٹھائی خاکِ مدینہ بطورِ خاکِ شفا

برائے زخم ہر اِک اندمال بھُول گیا

تمنا تھی کہ مدینے میں جا کے نعت لکھوں

ردیف، قافیہ، مضموں ، خیال بھُول گیا

بڑا تھا ناز توازن پہ میرے دل کو، مگر

مدینہ آیا تو سب میل،تال بھُول گیا

کچھ ایسے زوروں پہ تھا اِس برس خُمارِ سفر

چھَٹی جو گرد تو مَیں اتّصال بھُول گیا

مماثلت تھی بہت گھر سے سبز گنبد کی

پرندہ شام گئے اپنی ڈال بھُول گیا

عجیب کیف تھا مقصودؔ اُن کی بخشش کا

سوال بھُول گیا،قیل و قال بھُول گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]