وفورِ شوق میں ہے، کیفِ مشکبار میں ہے

حیاتِ نعت مری عرصۂ بہار میں ہے

یہ جاں، یہ شوق بہ لب، تیری رہگذارِ ناز

یہ دل، یہ دید طلب، تیرے انتظار میں ہے

تری عطا ترے الطافِ بے بہا مجھ پر

مری طلب ترے اکرام کے حصار میں ہے

ترے کرم، تری بخشش کا کب، کہاں ہے شمار

مری خطا ہے جو حد میں ہے اور شمار میں ہے

گلِ ُگلاب کو حاصل نہ مہر و مہ سے نمود

وہ دلبری جو تری خاکِ ریگزار میں ہے

مسافتوں میں بھی رکھتی ہے ُقربتوں کا کرم

حسین ربط تری خاکِ رہگُزار میں ہے

سرہانے شوق کے رکھتا ہُوں تیری دید کے خواب

پہ یہ کرم تو فقط تیرے اختیار میں ہے

اُداس رُت میں بھی رہتا ہے اک یقیں پیہم

مرا نصیب ترے قریۂ بہار میں ہے

بس ایک لمحے کو مہکی تھی اُن کی دید ُگلاب

یہ زیست اب بھی اُسی ساعتِ قرار میں ہے

جوارِ گنبدِ خضریٰ ہے روشنی کا ہجوم

فلک ستاروں کو تھامے ہوئے قطار میں ہے

یہ نعت ہے تو ہے تسکینِ جان و دل مقصودؔ

نہیں تو زیست کا ہر لمحہ اضطرار میں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]