وہم و گمان رہ گئے ، وجدان رہ گیا

نازل ہوئے شکوک تو ایمان رہ گیا

تیری ریاضتوں نے فرشتہ کیا شکار

مجھ میں مرے لیے مرا شیطان رہ گیا

عہدِ شکست میں مری پہچان رہ گئی

عہدِ شکست ہی مری پہچان رہ گیا

تو مانگتا ہے میرا حوالہ ثبوت سے

میں ہوں کہ اپنے آُپ کا امکان رہ گیا

ہارا ادھیڑ بن سے یہ نازِ سخنوری

سامع نہیں ملا تو یہ دیوان رہ گیا

ایسا کیا ہے رقص دلِ خام کار نے

عشقِ تماش بین بھی حیران رہ گیا

اہلِ جہاں خدا ہوئے جاتے ہیں اور میں

روئے زمیں پہ آخری انسان رہ گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]