وہی بجلیوں کی چشمک، وہی شاخِ آشیانہ

وہی میری زاریاں ہیں، وہی نالۂ شبانہ

بہ ادائے والہانہ، کوئی جہدِ مخلصانہ

مجھے چاہیے نہ واعظ، یہ کلامِ ناصحانہ

مری گردشیں ہیں ساری مرے اپنے ہی عمل سے

نہ نوشتۂ مقدر، نہ نوشتۂ زمانہ

ابھی سن رہے تھے ہنس کر، ابھی اٹھ گئے بگڑ کر

کہ سمجھ گئے بالآخر وہ حقیقتِ فسانہ

مرے آگے مسکرائے تو بہ طنزِ دل شکن وہ

مرے سامنے ہنسے تو، بہ ادائے جارحانہ

تہی دامنِ عمل ہے مری غفلتوں سے ورنہ

مری دسترس میں ہے تو تری یاد کا خزانہ

کوئی مدعا نظرؔ ہے، کوئی مصلحت ہے پنہاں

ابھی لے رہا ہے رہ رہ کے جو کروٹیں زمانہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]