وہی تھی کل بھی پسند اور وہی ہے آج پسند

الگ مزاج ہے میرا، الگ مزاج پسند

میں کیا کروں کہ مری سوچ مختلف ہے بہت

میں کیا کروں مجھے آیا نہیں سماج پسند

میں اپنی راہ نکالوں گا اپنی مرضی سے

مجھے نہیں ہیں زمانے، ترے رواج پسند

یہ میرا دل ، مری آنکھیں ، یہ میرے خواب عذاب

اٹھا اے عشق تجھے جو بھی ہے خراج پسند

محاذِ عشق پہ خود ہی شکست مانی ہے

زبیر دل پہ ہوا ہے کسی کا راج پسند

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]