وہ ایک شخص کہ سب جا چکے تو یاد آیا

کسی کو آئے نہ آئے مجھے تو یاد آیا

مقابلے پر اندھیرا نہیں ہوا بھی ہے

کئی چراغ یکایک بجھے تو یاد آیا

ہمارے ساتھ بھی موسم نے داؤ کھیلا تھا

خزاں کے ہاتھ سے پتے گرے تو یاد آیا

گئی رتوں کے پرندے ابھی نہیں لوٹے

شجر پہ تازہ شگوفے کھلے تو یاد آیا

کسی کی ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کا قرض مجھے

گلاب شاخ سے کانٹے چبھے تو یاد آیا

بہت زمانے سے کاغذ پہ دل نہیں رکھا

پرانے بیگ سے کچھ خط ملے تو یاد آیا

وہ ایک رسم تھی بڑھ کر گلے لگانے کی

تمام ہو چکے شکوے گلے تو یاد آیا

قدم قدم پہ وہ گزرا ہوا زمانہ ظہیرؔ

کسی کو آئے نہ آئے مجھے تو یاد آیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]