وہ ایک غم کا گیت سنائے بیٹھا تھا

میں بھی سارے درد بھلائے بیٹھا تھا

رستہ کیسے ملتا میرے خوابوں کو

میں نیندوں سے شرط لگائے بیٹھا تھا

نیند فقط اس بات پہ مجھ سے روٹھی ہے

میں پہلے سے خواب سجائے بیٹھا تھا

میں آمین کہے جاتا تھا اُس لمحے

جب وہ اپنے ہاتھ اُٹھائے بیٹھا تھا

زینؔ اُسی کے دامن سے وابستہ ہوں

جو ہاتھوں سے ہات چھڑائے بیٹھا تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]