وہ بُھولا بسرا نام

کچھ ایسے جُھوم کے آنکھوں میں جھلملائی ہے شام
کہ دھیان میں چمک اُٹھا ہے مثلِ ماہِ تُمام
وہ بھولا بسرا نام
وہ نام جس سے بج اُٹھتی ہیں گھنٹیاں دل میں
بلند ہوتی تھی پھر عشق کی اذاں دل میں
اذاں ۔ جنوں کا پیام
وہ نام جس کے ادب سے نگاہ جُھکتی تھی
وہ نام جس کی تلاوت کبھی نہ رُکتی تھی
سجود ہوں کہ قیام
وہ نام آتا زباں پر تو دل دھڑکتا تھا
پھر اُس کے بعد کوئی بھی نہ کھینچ سکتا تھا
بہکتے دل کی لگام
وہ نام ہم جسے دن رات گنگناتے تھے
وہ جس کے حرف ہمیں روزوشب پِلاتے تھے
سرورِ عشق کے جام
مگر یہ بات ہمیں وقت نے سکھائی ہے
کہ ہر ملن کا مقدر صرف جدائی ہے
نہیں کسی کو دوام
سو ہم بھی آخر اُسی اختتام کو پہنچے
وہ اب جہاں بھی ہے، اُس نیک نام کو پہنچے
ہمارے دل کا سلام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]