وہ تاب و تواں عقلِ بشر لائے کہاں سے

ہو عہدہ بر آ نعتِ شہِ کون و مکاں سے

پوشیدہ نہیں یہ نگہِ دیدہ وراں سے

سب عقل و تمیز آئی ہے انساں کو کہاں سے

خورشیدِ درخشاں نہ مہِ جلوہ فشاں سے

روشن ہے خدائی یہ شہنشاہِ زماں سے

روپوش ہوا جب سے جہانِ گزراں سے

نزدیک ہوا اور بھی وہ حجلۂ جاں سے

ہیگل سے میں پوچھوں نہ فلاں سے نہ فلاں سے

منزل مری روشن ترے قدموں کے نشاں سے

معراج میں گزرے ہیں وہ شاید کہ یہاں سے

اک گرد سی اڑتی ہے ابھی کاہ کشاں سے

پیارا نہیں مجھ کو وہ فقط باپ سے ماں سے

لاریب وہ محبوب ہے اپنی رگِ جاں سے

دعویٰ محبت ہو اگر شاہِ شہاں سے

بچ سوءِ عمل، سوءِ زباں، سوءِ گماں سے

خاص ایک دعا یہ ہے مری ربِ جہاں سے

پہنچائے مدینہ پہ نہ لوٹائے وہاں سے

پیوست ہے ہر لفظِ سخن اپنی جگہ پر

مسحور ہیں جیسے کہ ترے حسنِ بیاں سے

محفوظ ہے در صورتِ قرآن و احادیث

نکلا جو کلام آپ کی پاکیزہ زباں سے

چپ چپ بھی دکھائی دے تو خاموش نہ سمجھیں

پڑھتا ہے درود ان پہ نظرؔ دل کی زباں سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]