وہ جو اک شخص مجھے طعنہء جاں دیتا ہے

مرنے لگتا ہوں تو مرنے بھی کہاں دیتا ہے

تری شرطوں پہ ہی کرنا ہے اگر تجھ کو قبول

یہ سہولت تو مجھے سارا جہاں دیتا ہے

تم جسے آگ کا تریاق سمجھ لیتے ہو

دینے لگ جائے تو پانی بھی دھواں دیتا ہے

نا روا لاکھ سہی اپنی امامت لیکن

اس پہ واجب ہے جو صحرا میں اذاں دیتا ہے

جم کے چلتا ہوں زمیں پر جو میں آسانی سے

یہ ہنر مجھ کو مرابار ِگراں دیتا ہے

ہاں اگر پیاس کا ڈھنڈورا نہ پیٹا جائے

پھر تو پیاسے کو بھی آواز کنواں دیتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]