وہ رات میاں رات تھی ایسی کہ نہ پوچھو

پہلی ہی ملاقات تھی ایسی کہ نہ پوچھو

پانی ہی نہیں، آگ بھی تھی اُس کی پُجارن

اُس بُت میں کوئی بات تھی ایسی کہ نہ پوچھو

انگ انگ میں وہ رنگ کہ ہوتی تھی نظر دنگ

آنکھوں کی مدارات تھی ایسی کہ نہ پوچھو

حیرت کو بھی حیرت تھی کہ دیکھے بھی تو کیا کیا

نظاروں کی بُہتات تھی ایسی کہ نہ پوچھو

شب بھر میں گدا سے مَیں ہوا بادشہِ عشق

کشکول میں خیرات تھی ایسی کہ نہ پوچھو

آنکھوں میں مسلسل تھے رواں اشک خُوشی کے

تاروں کی وہ برسات تھی ایسی کہ نہ پوچھو

کیا مُجھ سے محبت ہے ؟ محبت ہے تو کتنی ؟

وہ محوِ سوالات تھی ایسی کہ نہ پوچھو

کانوں میں کہی وقتِ سحر اُس نے کوئی بات

اُس بات میں اِک بات تھی ایسی کہ نہ پوچھو

وہ پُوچھ رہی تھی کہ سکوں کی کوئی صُورت

اور صُورتِ حالات تھی ایسی کہ نہ پوچھو

دِل ہار گیا پھر بھی اُسے جیت گیا میں

وہ جیت بھری مات تھی ایسی کہ نہ پوچھو

تھی وقتِ تہجد مری اور اُس کی ہتھیلی

فارس! وہ مناجات تھی ایسی کہ نہ پوچھو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]