وہ رَبّ ہے
وہ، علم جس کا محیطِ کل ہے
اسی کی قدرت،کہ بس ارادہ کرے
تو ہر شے وجود پا لے
اُسی کی آیات ذرّے ذرّے میں
اپنا جلوہ دکھا رہی ہیں
ہوائوں سے مل کے اس کے نغمے
سبھی فضائیں سنا رہی ہیں
میں اس کی قدرت کے کارخانے میں
چشمِ حیراں کے ساتھ آیا
تو دم بخود تھا
میں سوچتا تھا
زمیں کی وسعت
اور آسماں کی بلندیوں میں
یہ کس کا چہرہ دمک رہا ہے
جوشمع آسا اندھیری راتوں کے درمیاں
یوں چمک رہا ہے
میں سوچتا تھا مگرمیں اس ذات کے
تعارف سے بے خبر تھا
میں بے خبر تھا مگر مرا کل وجود
اس کی طرف رواں تھا
میں قرن ہا قرن اس کو ڈھونڈھا کیا
مگر اس کو دیکھ پایا، نہ جان پایا
نہ میں نے اس کی صفات جانیں
نہ ذات جانی
پھر اس کے پیغمبروں نے آ کر
مری نظر کو بصارتوں کی نوید دی
اور دل کو بخشیں بصیرتیں بھی
ملی بصیرت تو میری حیرت پہ
اِک نئی آگہی کا دَر کھل گیا جہاں میں
ازل سے پہلے کی سب کہانی
ابد کے مابعد کے ترانے
سنے تو دل کو یقیں کی دولت عطا ہوئی
اور…… روح نے روشنی بھی پائی
وہ جس کی آیات ہیں جہاں میں
اسی نے روزِ الست مجھ سے
’’بلٰی‘‘ کا اِقرار لے لیا تھا
مگر میں اس خاکداں میں آکر
بھٹک گیا تھا
وہ رب ہے!!
خود اس نے مجھ کو
پہلے بتا دیا تھا