وہ لوگ جن سے نہیں ہے مکالمہ میرا

وہی تو کرنے چلے ہیں مقابلہ میرا

تُو اپنی دنیا اٹھا اور اک طرف ہو جا

کہ اب خدا سے ہی ہوگا معاملہ میرا

کسی بھی عشق کے مضموں کو کیا کروں پڑھ کر

مرے تو ہاتھ پہ رکھا ہے تجربہ میرا

ادھورے عکس دکھاتا ہے ایک مدت سے

کہ بدگمان ہوا مجھ سے آئینہ میرا

میں ایسے ٹوٹ کے ذروں میں بٹ گیا ہوں دوست

ہوا نہ خود سے تیرے بعد رابطہ میرا

میں تیرے فیضِ محبت سے مستجاب ہوا

کھڑا ہے اب بھی مگر رہ میں مسئلہ میرا

بھٹکنے کے لئے چھوڑا ہے دشت میں قیصر

سمندروں نے بتایا نہ راستہ میرا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]