وہ لوگ جن سے نہیں ہے مکالمہ میرا
وہی تو کرنے چلے ہیں مقابلہ میرا
تُو اپنی دنیا اٹھا اور اک طرف ہو جا
کہ اب خدا سے ہی ہوگا معاملہ میرا
کسی بھی عشق کے مضموں کو کیا کروں پڑھ کر
مرے تو ہاتھ پہ رکھا ہے تجربہ میرا
ادھورے عکس دکھاتا ہے ایک مدت سے
کہ بدگمان ہوا مجھ سے آئینہ میرا
میں ایسے ٹوٹ کے ذروں میں بٹ گیا ہوں دوست
ہوا نہ خود سے تیرے بعد رابطہ میرا
میں تیرے فیضِ محبت سے مستجاب ہوا
کھڑا ہے اب بھی مگر رہ میں مسئلہ میرا
بھٹکنے کے لئے چھوڑا ہے دشت میں قیصر
سمندروں نے بتایا نہ راستہ میرا