وہ مری فکر سے ادراک سے برتر مہکے

اُس کی مدحت کا ہر اِک حرف برابر مہکے

حسن کے سارے تناظر ہیں اُسی کے منظر

وہ مری آنکھ میں چمکے، مرے لب پَر مہکے

وہ زمیں زاد زمانوں کا شگفتہ پیکر

اُس کی خوشبو کا سفر عرش کے اُوپر مہکے

اُن کے آنے کی خبر خواب کے پردوں سے پرے

اُن کے ہونے کا گماں بارِ مکرر مہکے

دل کو تدبیر کی حاجت نہیں درپیش، مگر

ایک امکان کا منظر ہے کہ شب بھر مہکے

ایک ہی لمحہ تھا وہ، اُن کے گمانوں والا

ایک ہی لمحہ ہے وہ جیسے کہ اکثر مہکے

پورے وجدان میں نکہت کے قصیدے گونجیں

دشتِ امکان میں مدحت کا گلِ تر مہکے

ویسے تو خواہشِ دل سوچ کے شَل ہو جائے

آپ کی مرضی پہ ہے ، آئیں ، مرا گھر مہکے

روشنی بھی ہے خجل دیکھ کے جلوے تیرے

نور کی بھیک سے مہر و مہ و اختر مہکے

آپ کا ذکر ہو اور صبح کی کرنیں جاگیں

آپ کی نعت ہو اور شام کا منظر مہکے

کتنے مغموم گمانوں کی ہے چاہت مقصودؔ

وحشتِ قریۂ دل میں مرا دلبَر مہکے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]