وہ مُبتدا کہ مرکزی نقطہ حیات کا

وہ مُنتہا کہ ختمِ رسل کائنات کا

تجسیم جس کی علّتِ تخلیق روزگار

باعث ہے جس کا نام سبھی ممکنات کا

ہر بات جس کی ایک سماوی کتاب ہے

ہر لفظ اک صحیفۂ دِل جس کی بات کا

مذکور جس کا نام ہر اک انجمن میں ہے

موضوعِ دلپذیر ہے جو شش جہات کا

جس کے غلام بوذر و سلمان فارسی

سب میں حَسین عکس ہے مولا کی ذات کا

فاروق و مرتضیٰ کی وہ ہیبت کہ الحفیظ

دل ڈوب ڈوب جائے تھا باطل صفات کا

جب غزنوی نے پایا جنم ماں کی کوکھ سے

پِتاّ پگَھل کے پانی ہُوا سومنات کا

جس کے لطیف اشارے سے چشمے اُبل پڑیں

تھا بند اس کی آل پہ پانی فرات کا

بندوں کو جس نے کر دیا ہمدوشِ خواجگاں

قائل تھا جو نسَب نہ کسی ذات پات کا

دیوار و در سے صبحِ تعقل ہوئی طلوع

جب آگہی کے شہر میں منظر تھا رات کا

پتھر بھی جس کے ہاتھ میں مصروفِ حمد ہیں

تسبیح جس کی کرتا ہے عالم نبات کا

اب تک ضمیر سنگ میں ضربِ شکست ہے

پِندار چکنا چُور ہے لات و منات کا

ممکن نہیں کہ ہو سکے حق نعت کا ادا

زمزم سے بھی اگر میں لُوں پانی دوات کا

ثقفِ سما پہ نعت ہے اس کی لکھی ہوئی

رتبہ کہاں ہے اتنا مرے کاغذات کا

انورؔ کہاں ثنائے محمد مری مجال

بس ڈھونڈتا ہوں میں تو ذریعہ نجات کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]