وہ چشمِ نم وہ قلب وہ سوزِ جگر کہاں

چلنے کو راہِ عشق میں رختِ سفر کہاں

خالی صدف ہے نقدِ متاعِ گہر کہاں

آنکھیں ہی رہ گئی ہیں حیائے نظر کہاں

بچتا ہے سنگ و خشت کی زد سے یہ سر کہاں

یہ کوئے عاشقی ہے تم آئے ادھر کہاں

وہ گل وہ گلستاں وہ بہاریں وہ نغمگی

پہلی سی وہ لطافتِ شام و سحر کہاں

سب بوالہوس ہیں حُسن رہے اب حجاب میں

سوءِ نظر تو عام ہے حُسنِ نظر کہاں

اس دورِ پُر فتن میں نہیں دل سے دل کو راہ

ہم جنس ہیں پر اُنس ہے باہم دگر کہاں

کب سے ہوں جستجو میں پہ ملتا نہیں سراغ

گم ہو کے رہ گئی ہے مری رہ گزر کہاں

اس آستاں پہ بیٹھ گئے ہم تو اے نظرؔ

ہم کو نہیں دماغ پھریں در بدر کہاں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]