وہ ہی بے لوث ہے جو آپ کی نسبت سے ملا
ورنہ ہر شخص یہاں اپنی ضرورت سے ملا
منتظر بیٹھے ہیں اُس خواب کے دروازے پر
دل کو جو ان کی تمنائے زیارت سے ملا
جب اُبھارے گئے امکان پہ ہستی کے خطوط
حسن مخلوق کو سب آپکی صورت سے ملا
عظمتِ راہبری عقل پہ کھل جائے گی
ان کے منصب کو رسولوں کی امامت سے ،مِلا
آپکی بزم سے دشمن بھی جب اک بار اٹھا
پھر وہ جس سے بھی ملا پوری محبت سے ملا
دین کو گویا ہر اک جذبے پہ فوقیت ہے
یہ سبق بھی ہمیں سرکار کی ہجرت سے ملا
رمز اک اسمِ محمد میں ہے یہ بھی پنہاں
ایک بھی حرف نہیں نام کا علّت سے مِلا
درِ عرفان درِ پاک پہ وا ہوتا ہے
اُس نگر جا کے کبھی ہاتھ حقیقت سے ملا
اس کی نکہت سے جہانوں میں مہک پھیلی ہے
پھول جو ہم کو چمن ہائے رسالت سے ملا
اس سے آباد ہیں ایمان کے سارے عالم
عقل کو جتنا خزانہ تری سنت سے ملا