وہ ہے اپنا یہ جتانا بھی نہیں چاہتے ہم

دل کو اب اور دکھانا بھی نہیں چاہتے ہم

آرزو ہے کہ وہ ہر بات کو خود ہی سمجھے

دل میں کیا کیا ہے دکھانا بھی نہیں چاہتے ہم

ایک پردے نے بنا رکھا ہے دونوں کا بھرم

اور وہ پردہ ہٹانا بھی نہیں چاہتے ہم

تہمتیں ہم پہ لگی رہتی ہیں لیکن پھر بھی

آسماں سر پہ گرانا بھی نہیں چاہتے ہم

خود نمائی ہمیں منظور نہیں ہے ہرگز

ایسے قد اپنا بڑھانا بھی نہیں چاہتے ہم

دس سے ملنا ہے اسے ایک ہیں ان میں ہم بھی

اس طرح اس کو بلانا بھی نہیں چاہتے ہم

ہم سے ملنے کی تڑپ جب نہیں اس کو میناؔ

ہاتھ پھر اس سے ملانا بھی نہیں چاہتے ہم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]