ٹُوٹے ہُوئے دِلوں کے سہارے حضور ہیں

ہم کو تو اپنی جان سے پیارے حضور ہیں

بے جان میں حیات کے منظر عیاں ہُوئے

فرماتے جس طرف بھی اشارے حضور ہیں

دنیا و آخرت میں ہمیں خوف کیوں رہے

کرنے کو اپنے وارے نیارے حضور ہیں

یا سیدی اغِثنی پکارا ہے جس گھڑی

طوفان میں بھی دیتے کنارے حضور ہیں

جو بھی نہیں حضور کے رب کے نہیں ہیں وہ

اُن کا خدا ہے جن کے ہمارے حضور ہیں

کیا خوب اُن کا اُسوۂ پُر نور واہ وا

ہر قوم کہہ رہی ہے ہمارے حضور ہیں

گر چہ تمہیں ڈرائیں زمانے کی مشکلیں

مرزا نہ رکھنا خوف تمہارے حضور ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]