ٹھہری ہوئی آنکھوں میں جدائی کی گھڑی ہے
شب آخری طیبہ کی مرے سر پہ کھڑی ہے
اِک ساعتِ بیدار ہے مقسوم نظر کا
دوری میں تڑپنے کے لیے عمر پڑی ہے
اِک لمحہ پراں ہے میسر دمِ رُخصت
فہرست دُعاؤں کی سلاموں کی بڑی ہے
کیا عرض و گزارش ہو کہ ملتے نہیں الفاظ؟
دُنیائے تمنّا ہے! جو ہونٹوں پر اَڑی ہے!
روتے ہوئے سامانِ سفر باندھ رہے ہیں
محسوس یہ ہوتا ہے قیامت کی گھڑی ہے
اِک گنبدِ خضرا ہے محیط دل و دیدہ
دھندلائی ہوئی آنکھوں میں تصویر جڑی ہے
کھنچتے چلے جاتے ہیں قدم سوئے حرم پھر
یہ شہرِ مدینہ سے نکلنے کی گھڑی ہے
آتے ہوئے کیا سہل مدینے کا سفر تھا؟
جاتے ہیں تو ایک ایک قدم راہ کڑی ہے!
لَوٹا ہے مدینے سے ریاضؔ اپنا بدن ہی
جو روح ہے وہ اب بھی مواجہ پر کھڑی ہے