ٹھہری ہوئی آنکھوں میں جدائی کی گھڑی ہے

شب آخری طیبہ کی مرے سر پہ کھڑی ہے

اِک ساعتِ بیدار ہے مقسوم نظر کا

دوری میں تڑپنے کے لیے عمر پڑی ہے

اِک لمحہ پراں ہے میسر دمِ رُخصت

فہرست دُعاؤں کی سلاموں کی بڑی ہے

کیا عرض و گزارش ہو کہ ملتے نہیں الفاظ؟

دُنیائے تمنّا ہے! جو ہونٹوں پر اَڑی ہے!

روتے ہوئے سامانِ سفر باندھ رہے ہیں

محسوس یہ ہوتا ہے قیامت کی گھڑی ہے

اِک گنبدِ خضرا ہے محیط دل و دیدہ

دھندلائی ہوئی آنکھوں میں تصویر جڑی ہے

کھنچتے چلے جاتے ہیں قدم سوئے حرم پھر

یہ شہرِ مدینہ سے نکلنے کی گھڑی ہے

آتے ہوئے کیا سہل مدینے کا سفر تھا؟

جاتے ہیں تو ایک ایک قدم راہ کڑی ہے!

لَوٹا ہے مدینے سے ریاضؔ اپنا بدن ہی

جو روح ہے وہ اب بھی مواجہ پر کھڑی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]