پرچم کشا جمال ہے شہر حبیب میں

ہر نقش بے مثال ہے شہر حبیب میں

میری طرف بھی دیکھئے سرکار اک نظر

ہر لب پر اک سوال ہے شہر حبیب میں

بچھتا ہی جا رہا ہے ہر اک رہگذار پر

دل کا عجیب حال ہے شہر حبیب میں

جو زخم ہیں لگائے ہوئے روزگار کے

ان سب کا اندمال ہے شہر حبیب میں

کچھ ایسے غمگسار حرم کے ستون ہیں

کافور ہر ملال ہے شہر حبیب میں

منزل پہ آ گیا ہوں سفر جیسے کاٹ کر

آرام جاں بحال ہے شہر حبیب میں

تائب مدینے والے کے جلوے ہیں ہرطرف

نکھرا ہوا خیال ہے شہر حبیب میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]