پست بے انتہا ہے میرا شعور

زیرِ انوارِ نعت کتنے ہی طور

تیری مدحت کے ہر تخیّل میں

روشنی روشنی ہے نور ہی نور

جب سے توفیقِ نعت مجھ کو ملی

جسم و جاں ہیں مرے بھی محوِ سرور

پردہ پوشی حضور نے کی ہے

پیشِ سرکار جب ہوئے ہیں قصور

میں نے نسلوں میں غلامی مانگی

مجھے اعزاز وہ بخشیں گے ضرور

کب میں ہرچیز تجھ پہ واروں گا

کب میں مومن بنوں گا میرے حضور

علمِ غیب اُنکا کوئی کیا سمجھے

جب سواری کو بھی ہو کشفِ قبور

تیرا صدیقؓ ہے وہ قلزمِ عشق

کر نہیں سکتا کوئی جس کو عبور

کتنی بارعب سادگی ہے تری

کتنا لاچار ہے یہاں پہ غرور

اشک میرے یہ کہہ رہے ہیں شکیلؔ

دل سے ہرگز نہیں مدینہ دور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]