پسے ہیں دل زیادہ تر حنا سے

چلا دو گام بھی جب وہ ادا سے

وہ بت آئے ادھر بھی بھول کر راہ

دعا یہ مانگتا ہوں میں خدا سے

حجاب اس کا ہوا شب مانع دید

نقاب الٹی نہ چہرے کی حیا سے

اشارہ خنجر ابرو کا بس تھا

مجھے مارا عبث تیغ جفا سے

بہت بل کھا رہی ہے زلف جاناں

بچے گی جان کیوں کر اس بلا سے

ہے بہتر اک کرشمے میں ہوں دو کام

مدینے جاؤں راہ کربلا سے

خدا جب بے طلب بر لائے مقصد

اٹھاؤں کیوں نہ ہاتھ اپنے دعا سے

نظامؔ اب عقدۂ دل کیوں نہ حل ہوں

محبت ہے تجھے مشکل کشا سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]