پلنگ ایک الگ لحاف

قبولیت نہ انحراف

بچھڑنا چاہئے ہمیں

تو یوں کہو نا صاف صاف

اگر تو تیغ پھینک دے

تجھے مرا لہو معاف

ادھر ذرا سی بات کی

ادھر کسی کا موڈ آف

میں اس کی جیب کا بٹن

وہ میرے ہاتھ کا شگاف

اتر کے جھیل میں بھی ہم

ہیں زیرِ آب ناف ناف

پرانی آشنائی پر

بہت جچے گا اختلاف

وہ کیا کتاب کھولتے

جو چومتے رہے غلاف

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]