پگھل کر روشنی میں ڈھل رہوں گا

نظر آ کر بھی میں اوجھل رہوں گا

بچھڑ جاؤں گا اک دن اشک بن کر

تمہاری آنکھ میں دو پَل رہوں گا

ہزاروں شکلیں مجھ میں دیکھنا تم

سروں پر بن کے میں بادل رہوں گا

میں مٹی ہوں، کوئی سونا نہیں ہوں

جہاں کل تھا، وہیں میں کل رہوں گا

بدن صحرا ہے لیکن آنکھ نم ہے

اِسی شبنم سے میں جل تھل رہوں گا

جہاں چاہو مجھے رکھ دو اٹھا کر

چراغِ نیم شب ہوں جل رہوں گا

گرا کر خود کو ہلکا ہو تو جاؤں

پر اندر سے بہت بوجھل رہوں گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]