پھر رائیگاں گئے ہیں ستم ساز گونج کر

رزقِ ہِوا ہوئے مرے الفاظ گونج کر

کوئی دیارِ عشق میں ہوتا تو بولتا

آخر کو رہ گئی مری آواز گونج کر

اس خوش نوائے خواب کی سنگت نہیں ملی

خاموش ہو چکا ہے مرا ساز گونج کر

میں تھا ہی ایک نعرہِ مستانہِ جنوں

معدوم ہو گیا ہوں بصد ناز گونج کر

بد نیتوں کے کان کھڑے کر گئی صدا

انجام ہو گیا مرا آغاز گونج کر

ضرب المثال ہو گئی عریانیاں مری

کھلنے لگے جہان میں اب راز گونج کر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]