پھول کھلا روِش روِش ، نُور کا اہتمام کر

حضرتِ قیس آئے ہیں ، دشتِ جنوں! سلام کر

سینہ نہ پِیٹ، ہجر ذاد! سینے میں دل مُقیم ہے

دل میں جنابِ یار ہیں ، اُن کا تو احترام کر

مصرعۂ چشم و لب سُنا ، نغمۂ حُسن گُنگُنا

تُو ہے مری غزل کی جان ، جانِ غزل! کلام کر

کوئی دوا بتا مجھے ، تھوڑا سکوں دِلا مجھے

آگ ہوں مَیں ، بُجھا مجھے ، وحشی ہوں، مجھ کو رام کر

عشق کا مُقتدی ہے تو ، جیسے پڑھائے ویسے پڑھ

اپنی نماز بھول جا ، پیرویٔ اِمام کر

سائیں جی! کھو گیا تھا میں ، شکر ہے آپ مل گئے

پہنچا ہوں اپنے آپ تک آپ کا ہاتھ تھام کر

ہجر قدیم بھید ہے ، وصل عظیم بھید ہے

ہجر کی رمز کھول دے ، وصل کا راز عام کر

اچھا نہیں ہے اتنا جوش ، اُڑنے لگے ہیں سب کے ہوش

فارسِ بے ادب ! خموش ، اب یہ غزل تمام کر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]