جھانکتے جھانکتے کنارے سے
رات میں گر پڑا ستارے سے
ویسے میں صف میں آخری تھا مگر
اُس نے بلوا لیا اشارے سے
اور پاس آگیا بچھڑ کر تو
فائدہ ہو گیا خسارے سے
گھر نہیں ، بے گھری بنائی ہے
میں نے وحشت کے اینٹ گارے سے
شاعروں نے کمائی کی ہے بہت
رائیگانی کے استعارے سے
تُو مرے رَب کا فیصلہ ہے میاں
تجھ کو پایا ہے استخارے سے
اک مسافر کو دیکھتا تھا کوئی
شہر کے آخری منارے سے
تلخیوں کے علاوہ کیا ملتا
ایک میٹھے کو ایک کھارے سے
کچھ نہ پوچھو کہ کیا کِیا فارس
ایک پیارے نے ایک پیارے سے