پیاس کا پودا لگایا حکمتِ شبیرؑ نے

اپنی آنکھوں سے دیا پانی اُسے ہمشیرؑ نے

سیدہ کی گود میں جب مسکرایا آفتاب

اک نیا پیکر دیا اسلام کو تنویر نے

لے کے آیا تھا بڑا لشکر تکبر شمر کا

کر دیا گھائل حسینیؑ فکر کی شمشیر نے

کربلا میں سب نے دکھلایا ہنر اپنا مگر

جنگ جیتی مسکرا کر فطرتِ بے شیر نے

ظلمتِ شب کی اداسی میں در شبیرؑ کا

راستہ حر کو دکھایا مشعلِ تقدیر نے

غم کی آتش میں سلگتی زندگی کو اے خمارؔ

عشق کا نغمہ دیا بیمار کی زنجیر نے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]