پیکرِ نور ہے وہ نور کا سایا کب ہے

عقلِ انساں ترے اندر وہ سمایا کب ہے

سارے عالم ہیں فدا اُس رُخِ زیبا پہ مگر

پردئہِ حسن ابھی رب نے اُٹھایا کب ہے

ہم نے ہر حال میں دی آپ کی رحمت کو صدا

دردِ دل اور کہیں ہم نے سنایا کب ہے

جھولیاں بھر گئیں بس نام لیا ہے اُن کا

دامنِ دل ابھی اس در پہ بچھایا کب ہے

رب کو رو رو کے مناتے رہے امت کیلئے

ہم نے اِس رشتہِ شفقت کو نبھایا کب ہے

پوچھتا ہے کہ دلوں پر یہ حکومت کیسی

معترض! تو درِ سرکار پہ آیا کب ہے

قبر میں حشر میں دنیا میں ہر اِک جا آقا

بن ترے اور کسی نے بھی بچایا کب ہے

روح احساسِ ندامت سے ہے رنجیدہ شکیلؔ

اُن کی مانی ہے کہاں رب کو منایا کب ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]